بدھ، 12 فروری، 2014

جامعہ دارالعلوم حقانیہ خدمات کے آئینے میں

جامعہ دارالعلوم حقانیہ
خدمات کے آئینے میں
               
                 تیرہویں صدی ہجری آخری سانس لے رہی تھی اور ہندوستان میں اسلامی شوکت وسطوت کا چراغ گل ہو چکا تھا ۔اسلامی شعائر رفتہ رفتہ زوال کی طرف گامزن تھے ، دینی علم اور دینی شعور رخصت ہورہاتھا ، مسلمانوں میں اسوۂ پیغمبری کی بجائے جاہلانہ رسم ورواج وشہوت پرستی زور پکڑ رہی تھی ،اورمغربی تہذیب وتمدن کا آفتاب طلوع ہو رہاتھا ۔جس سے دہریت ، الحاد اور مادہ پرستی کی کرنیں پھوٹ رہی تھیں ،ان غیر یقینی حالات میں بخوبی اندازہ ہو رہاتھا کہ اب اسلام کا چمن اجڑا ،اور یہ کہ اب ہندوستان میں بھی اسپین کی تاریخ دہرائی جائے گی ۔اس وقت چند نفوس قدسیہ نے بذریعہ الہام خداوندی اپنے دل میں خلش محسوس کی ،اسلام اور مسلمانوں کے تحفظ کے لئے جانوں کے نذرانے پیش کرکے رہتی دنیا کے لئے مثال قائم کردی اور قرون اولیٰ کی یاد تازہ کردی ۔
                اس وقت کے علماء اور ضیغم اسلام نے اس امر کو محسوس کیا ،کہ مسلمانوں کی پستی اور عالم اسلام کے مسلمانو ںکی بے چینی کو ختم کرنے کے لئے ایک دینی ادارے کا قیام ضروری ہے اور قاسم العلوم والخیرات حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ نے 1867؁ء کو دیوبند کے مقام پر دارالعلوم دیوبند کا سنگ بنیاد رکھا ۔اس دارالعلوم نے دین کے ہر شعبہ کی بقاء کے لئے رجال کار پیدا کئے اور ان رجال کار سے اللہ رب العزت نے دین کی صحیح معنوں میں خدمت لی ،ان رجال کار میں ایک شخص شیخ الحدیث حضرت مولانا عبد الحق  ؒ بھی تھے ۔جنہوں نے دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد حلقاتی درس وتدریس کے ساتھ اپنے علاقہ اکوڑہ خٹک میں ترویج اسلام کے لئے 1937؁ء میں انجمن تعلیم القرآن کی بنیاد رکھی ۔
                شیخ العرب والعجم حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ نے قیام کے ایک سال بعد اس ادارے میں تشریف لا کر عوام الناس کے ایک جم غفیر سے خطاب فرمایا اور مدرسہ کی بقاء کے لئے بارگاہِ ایزدی میں دعا کی ،کچھ عرصہ بیت جانے کے بعد دیوبند کے اساتذہ کرام کی طرف سے حضرت مولانا عبد الحق صاحبؒ  کو دارالعلوم دیوبند میں تدریس کی پیشکش کی گئی جسے آپ نے 1943؁ء میں قبول فرمایا اور دارالعلوم دیوبند میں استاذ کی حیثیت سے آپ کا تقرر ہوا،یہاں پانچ سال تک آپ نے تدریسی خدمات سرانجام دیں ۔
دارالعلوم حقانیہ کا قیام :
                1947؁ء کو پاکستان معرض وجود میں آیا اور حالات ایک بار پھر سیاہ اندھیرے کی نظر ہوئے ، مسلمانوں کو ایک بار پھر قرون اولیٰ کی یاد تازہ کرتے ہوئے ہجرت کرنی پڑی اور قربانی کی وہ مثالیں قائم کیں ،جس کو صحیفۂ تاریخ بھی رقم کرنے سے عاجز ہے ،ان غیر یقینی حالات میں حضرت مولانا عبد الحق صاحبؒ کو والد گرامی الحاج مولانا معروف گلؒ نے ہندوستان جانے سے منع فرمایا تو آپ نے گھر سے متصل پرانی مسجد میں علوم وفنون کی کتابوں کی تدریس شروع فرمائی ، تشنگان علوم آپ کے ارد گرد پروانوں کی مانند آتے چلے گئے اور اپنی علمی پیاس بجھاتے گئے اور رفتہ رفتہ لوگوں کی زبان پر دارالعلوم حقانیہ کا اسم مبارک جاری ہوا اور یہی نام تاحال زبان زدعام وخاص ہے ۔
ابتدائی حالات دارالعلوم :
                1947؁ء کو دارالعلوم حقانیہ سے فارغ التحصیل علماء کرام کی تعداد آٹھ تھی ۔
ابتدائی مطبخ:
                ابتدائی مطبخ کایہ عالم تھا کہ دوسیر آٹا بازار میں پکتا جب کہ سالن حضرتؒ کے گھر سے آتا ۔سالن کی فراہمی کا یہ سلسلہ تھوڑا بہت 1990؁ء تک جاری رہا ۔


اہلیان اکوڑہ میں دارالعلوم کی مقبولیت :
   ابتدائی ایام میں اہلیان اکوڑہ خٹک نے تن ایثار بن کر دارالعلوم حقانیہ کی بنیادوں کو اپنے خون اور پسینے سے استوار کرنے کے لئے اس کے قیام پر لبیک کہا ،علماء وشرفاء قوم نے اس کی سرپرستی کی طرف توجہ دی ،غرباء اور عوام نے اپنے خون اور پسینے کی کمائی سے کچھ حصہ طلباء دارالعلوم کے لئے وقف کیا ،دور دراز کے علاقوں سے آئے ہوئے مسافر طلباء کے رہن سہن کا بندوبست اکوڑہ خٹک کی تقریباً 35مساجد میں کیا گیا ۔اسی طرح علماء کرام نے طلباء کو پڑھانے کے لئے اپنی خدمات پیش کیں جن میں حضرت مولانا سید بادشاہ گل صاحبؒ،اور مولانا حافظ ڈاکٹر محمد اسرار الحق صاحبؒ کے نام سرفہرست اور قابل ذکر ہیں ،اسی طرح دارالعلوم حقانیہ نے ایک شاندار مذہبی ادارے کی شکل میں سعی شروع کی ،اور تدریجاً ترقی کی منازل طے کرتا گیا اور عرصہ قلیل میں سرزمین پاکستان میں ممتاز اور انفرادی حیثیت سے جانا پہچانا گیا ۔
دارالعلوم حقانیہ علماء واولیاء ، سیاسی اور سماجی افراد کی نظر میں :
                چونکہ دارالعلوم حقانیہ کاسنگ بنیاد انتہائی اخلاصِ نیت سے رکھا گیا تھا ، دارالعلوم اور اس کے طلباء کی کامیابی کے لئے شیخ الحدیث مولانا عبد الحق صاحبؒ نے راتوں کو اٹھ اٹھ کر بارگاہِ ایزدی میں سربسجود ہو کر زاروقطار رُو رُو کر دعائیں کیں ،اور یہ ان دعاؤں کا نتیجہ ہے ،کہ دارالعلوم حقانیہ اور اس کے فارغ التحصیل فضلاء کو دیگر مدارس پر ممتاز شان حاصل ہے ۔ حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب ؒ (مہتمم دارالعلوم دیوبند )دارالعلوم حقانیہ تشریف لائے اور دارالعلوم حقانیہ میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ:’’دارالعلوم کے اخلاص اور وقت قلیل میں بہترین کارکردگی ، قوم کی ملی سیاسی ، سماجی خدمات اور دین کی ترویج واشاعت کے لئے عرصہ قلیل میں رجال کار کا پیدا کرنا ان سب محاسن کو دیکھ کر میں یہ کہوں گا کہ دارالعلوم حقانیہ پاکستان کا دارالعلوم دیوبند اور دیوبند ثانی ہے ‘‘۔اسی طرح جامعہ الازہر مصر کے وائس چانسلر شیخ عبد اللہ الزائد نے دارالعلوم آمد پر خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ:’’جامعہ کی بے لوث اور ناقابل فراموش خدمات کو دیکھ کر کہوں گا کہ یہ جامعہ الازہر قدیم ہے ۔‘‘
                دارالعلوم حقانیہ کے سابق شیخ الحدیث حضرت مولانا مفتی محمد فرید صاحب دامت برکاتہم نے خواب میں دیکھا کہ دارالعلوم حقانیہ کے مرکزی گیٹ پر بہت بڑا بورڈ لگا ہوا ہے جس پر یہ آیت لکھی ہوئی ہے ۔’’مَنْ دَخَلَہٗ کَانَ اٰمِنًا‘‘۔
                حضرت مولانا ابو الحسن علی ندویؒ نے دارالعلوم حقانیہ آمد پر ایک جم غفیر سے خطاب کرتے ہوئے فرمایاکہ :’’میں نے یہاں آکر کسی پر احسان نہیں کیا ،میرا کسی کے اوپر کوئی احسان نہیں بلکہ میں نے اپنے اوپر احسان کیا اور بلانے والے نے مجھے اور میرے ساتھیوں پر احسان کیا کہ عزیز سرزمین کو دوبارہ دکھلا دیا ۔‘‘
                عوامی نیشنل پارٹی کے لیڈر خان عبد الولی خان مرحوم کے الفاظ جامعہ کے بارے میں یہ تھے ’’دارالعلوم حقانیہ خدائی اسٹیٹ ہے یہاں امن اور خوشحالی کا دوردورہ ہے ‘‘۔
                مولانا کوثر نیازی مرحوم سابق وزیر اطلاعات ونشریات نے دارالعلوم حقانیہ آمد پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ:’’دارالعلوم حقانیہ پاکستان میں وہ حیثیت حاصل کرے گا جو برصغیر میں دارالعلوم دیوبند کو حاصل ہے ۔‘‘
اکوڑہ خٹک (مجاہدین کا مسکن )تاریخ کے آئینے میں :
                خٹک افغانوں کے مشہور وصلی طبقہ کرڑانی کی ایک بہت بڑی شاخ کی حیثیت سے معروف ہے ،وجہ تسمیہ اکوڑہ خٹک کے بارے میں فاضل پشتو کے محقق شیر محمد خان گنڈاپوری لکھتے ہیں کہ خٹ کے معنیٰ ہیں چٹان(ک) نسبتی ہے یعنی پہاڑوں کے رہنے والے ۔جب صوبہ سرحد پر رنجیت سنگھ کی حکومت آئی تو رنجیت سنگھ نے ظلم وستم کی ایک نئی تاریخ رقم کی اور اپنے دورحکومت میں اسلام اور مسلمانوں کو نشانہ بنایا ، اسلام کو جڑ سے اکھاڑنے کی ناکام کوشش کی ۔ سید احمد شہید ؒ نے مسلمانوں کو سکھوں کی غلامی سے آزادی دلانے کے لئے 17؍جنوری 1826؁ء کو اپنے آبائی وطن رائے بریلی سے ہجرت کی اور چھ سو مجاہد ین کے ساتھ اپنے آبائی وطن کو خیر باد کہا ۔آپ راجستھان ،سندھ ،افغانستان اور صوبہ سرحد کے ریگستانوں اور دریاؤں کو طے کرتے ہوئے پشاور پہنچے اور سکھوں کے خلاف برسرپیکار ہوئے ، پہلی جنگ سکھوں کے خلاف اکوڑہ خٹک میں لڑی گئی ، یہاں آج دارالعلوم حقانیہ قائم ہے ،اس جگہ کو مجاہدین کا مسکن بننے کا شرف حاصل ہوا ،سید احمد شہید ؒ نے اس جگہ مٹی اٹھا کر فرمایا کہ مجھے اس مٹی سے علم حدیث کی خوشبو آرہی ہے ،سرزمین اکوڑہ خٹک سے مجاہدین نے فتوحات کا آغاز کیا اور دھیرے دھیرے قربانی دیتے ہوئے مسلمانوں کو سکھوں کی غلامی سے آزاد کراتے ہوئے بالآخر بالاکوٹ کے مقام پر شہادت کی خِلعت فاخرہ زیب تن فرمائی ۔
دارالعلوم حقانیہ کا مسلک ومشرب:
                دارالعلوم حقانیہ کا مسلک ومشرب اہل سنت والجماعۃ مذہب حنفی دیوبندی ہے ۔
دارالعلوم حقانیہ کے اغراض ومقاصد:
(۱)           ایسے افراد تیا ر کرنا جو بیک وقت مفسر ، محدث ، فقیہ ،صرفی اور نحوی ہوں ۔
(۲)           ایسے رجال کار پیداکرنا جو اعلاء کلمۃ اللہ کے لئے کفار کے ساتھ برسرپیکار ہوں ۔
(۳)          ایسے افراد کا تیار کرنا جو قوم کی امامت سنبھال سکیں اور ایسے افراد جو اشاعت دین کے لئے دنیا کے گوشہ گوشہ تک جا سکیں اور دین کی ترویج کر سکیں ۔
(۴)          ایسے مورخ ،مناظر ،مقرر ،مصنف تیارکرنا جوپوری دنیا میں بالخصوص ملک عزیز پاکستان میں ہرفرقہ باطلہ کا تعاقب کر سکیں اور سادہ لوح مسلمانوں کو فرقہ باطلہ کی مکاری وعیاری سے آشنا کر سکیں ۔
(۵)          ایسے سیاسی افراد تیار کرنا جو ظالم وجابر حکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ملا کر بات کر سکیں اور قوم کو یہود ونصاریٰ کی غلامی سے دور رکھ سکیں ۔
تعارف شعبہ جات دارالعلوم حقانیہ
شعبہ درس نظامی :
                یہ آٹھ سالہ اسلامیہ کورس ہے جس میں سولہ علوم پڑھائے جاتے ہیں ۔ 1947؁ ء میں جب حضرت شیخ الحدیثؒ نے درس وتدریس کا آغاز فرمایا تو اس وقت سے لے کر آج تک جامعہ میں مکمل درس نظامی کی تعلیم دی جاتی ہے ، اس وقت جامعہ میں درجہ اعدادیہ سے لے کر دورۂ حدیث (عالمیہ) تک وفاق المدارس العربیہ سے منظور شدہ نصاب پڑھایا جاتا ہے ،جس میں ہزاروں کی تعداد میں طلباء اپنی علمی پیاس بجھاتے ہیں ۔
شعبہ تعلیم القرآن حقانیہ ہائی سکول :
                حضرت شیخ الحدیث مولانا عبد الحق صاحبؒ نے تقسیم پاک وہند سے قبل 1937؁ء میں انجمن تعلیم القرآن کے نام سے ایک پرائمر ی سکول قائم کیا تھا جس میں عصری تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم بھی دی جاتی تھی ۔رفتہ رفتہ یہ شعبہ ترقی کرتے ہوئے ہائی تک پہنچ گیا ، بہت جلد اسے سیکنڈری کرنے کا ارادہ ہے ۔اس شعبہ میں اس وقت عملہ کی تعداد 30اور طلباء کی تعداد ایک ہزار ہے ۔
تخصص فی الفقہ والافتاء:      ۱۴۰۹ء میں حضرت شیخ الحدیث ؒ کی سرپرستی میں حضرت مولانا سمیع الحق صاحب دامت برکاتہم نے باقاعدہ طور پر دارالعلوم میں شعبہ تخصص فی الفقہ والافتاء قائم فرمایا ‘ اس وقت حضرت مولانا مفتی محمد فرید صاحب مدظلہ اور مولانا مفتی غلام الرحمن صاحب زیدہ مجدہ کو اس سلسلہ کے جملہ ذمہ داریاں سونپ دی گئی‘  ان حضرات کے جامعہ سے جانے کے بعداب اس شعبہ کی تمام تر ذمہ داریاں جامعہ کے نائب مہتمم حضرت مولانا انوار الحق صاحب دامت برکاتہم کی نگرانی میں دو ماہراساتذہ (مولانا مفتی مختار اللہ حقانی صاحب اور مولانا مفتی غلام قادر نعمانی صاحب )سرانجام دے رہے ہیں۔ اس شعبہ میں داخلہ اہلیت کی بنیاد پر دیا جارہا ہے۔ اور مخصوص تعداد میں طلباء کو داخل کیا جاتا ہے ‘ طلباء میں دینی علوم میں اہلیت کے ساتھ عصری علوم پر  دسترس کا بھی خیال رکھا جاتاہے۔ اس شعبہ میں طلباء کو تحقیق ‘ تصنیف‘ مطالعہ مصادر فقہیہ سے استنباط احکام اور فتویٰ نویسی کی تربیت دی جاتی ہے۔ بحمدللہ یہ شعبہ اپنی کارکردگی ‘ نظام تربیت ‘ نصاب تعلیم‘ اساتذہ کی محنت اور نگرانی میں توقع سے بڑھ کر کامیاب رہا ہے۔
تخصص فی الحدیث:۱۴۲۴ھ کو حضرت مولانا سمیع الحق صاحب کے مشورہ سے جامعہ کے شیخ الحدیث حضرت مولانا ڈاکٹر سید شیر علی شاہ صاحب کی نگرانی میں تخصص فی الحدیث النبوی ﷺ کا قیام عمل آیا اور اس شعبہ کی تمام تر ذمہ داریاں حضرت ڈاکٹر صاحب ہی کو سونپ دی گئیں۔ بحمدللہ ان دو سالوں میں اچھے نتائج سامنے آئے ہیں‘اس شعبہ میں بھی طلباء کو بحث و تحقیق ‘ تصنیف‘ مطالعہ ‘ تخریج احادیث ‘ تحقیق الرجال اور اصول حدیث کی تعلیم دیجاتی ہے
تخصص فی المنطق :
                اس شعبہ میں معقولات ، فلسفہ ،عقائد ،حساب اور ھیئۃ کی وہ کتابیں پڑھائی جاتی ہیں جو طلباء نے درس نظامی میں نہ پڑھی ہوں ۔ اس کی ابتدا جامعہ کے شروع سے چلی آرہی ہے ،اس وقت مولانا فیض الرحمن حقانی مدظلہ کے زیر نگرانی احسن طریقے سے چل رہا ہے ۔
شعبہ حفظ وتجوید :
                شعبہ حفظ وتجوید کی بنیاد 19؍ دسمبر 1981؁ء بروز جمعہ بدست حضرت شیخ الحدیث ؒرکھی گئی ۔ اس وقت شعبہ حفظ میں 300طلباء کرام اپنے سینوں میںکلامِ الٰہی محفوظ کر رہے ہیں اور آٹھ جید قراء کرام ان طلباء کی نگرانی نہایت احسن طریقے سے نبھا رہے ہیں ۔
شعبہ افتاء:
                دور دراز کے علاقوں سے لوگ دارالعلوم آتے ہیں اور اپنے پیش آمدہ مسائل کے سلسلے میں شرعی حل کے لئے شعبہ دارالافتاء میں مفتیان عظام سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں ۔ اس شعبہ سے تاحال ڈیڑھ لاکھ فتاویٰ جاری ہوئے ہیں جس میں اکثر مسائل ’’فتاویٰ حقانیہ‘‘(چھ جلدوں )کی شکل میں شائع ہو چکے ہیں ۔ خط وکتابت کے ذریعے بھی مسائل کے جوابات دئیے جاتے ہیں ۔
شعبہ کمپیوٹر:
                جامعہ نے دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم پر بھی توجہ دی ہے ، طلباء کو کمپیوٹر کی تعلیم دینے کیلئے جامعہ نے ایک شعبہ کمپیوٹر بھی قائم کیا ہے جس میں بیک وقت 50طلباء کمپیوٹر سیکھتے ہیں اور حال ہی میں شعبہ تخصص فی الافتاء کے طلباء کے لیے علیحدہ لیب کا انتظام کیا گیا ہے ۔
شعبہ حقانیہ ڈیجٹل لائیبریری:
جامعہ میں حال ہی میں نئے شعبہ کا آغاز ہواہے ۔جس میں مؤتمر المصنفین ، حقانیہ کے اساتذہ کرام اور فضلاء کرام  کی تمام تصانیف کو ایک سافٹ وئیر "مکتبہ جامعہ حقانیہ" میں جمع کیا جارہا ہے۔ نیز اس میں مضامین کی تلاش کے علاوہ کئی مفید سہولیات موجود ہے۔
شعبہ خطاطی :
                جامعہ ہذا میں گزشتہ تین سالوں سے یہ شعبہ خطاطی قائم ہے۔جسے درجہ اعدادیہ سے لے کر درجہ رابعہ تک طلبہ کے لئے لازمی قرار دیا گیاہے۔ جس کو مولانا حمایت الحق صاحب بڑی خوش اسلوبی سے چلا رہے ہیں۔
شعبہ انگلش لینگویج:
                انگریزی زبان کی تعلیم کے لئے جامعہ نے انگلش لینگویج کا مستقل شعبہ قائم کیا ہے ،اس شعبہ میں ماہر اساتذہ کی زیر نگرانی جامعہ کے خواہشمند طلباء کو انگریزی زبان کی تعلیم دی جاتی ہے تاکہ ہمارے طلباء اس علمی اسلحہ سے بھی لیس کر اسلام کی خدمت کر سکیں ۔
شعبہ دعوت ارشاد:
                موجودہ پُرفتن دور میں اسلامی تعلیمات اور اسلامی عقائد کی اشاعت وترویج ایک اہم فریضہ ہے تاکہ عامۃ المسلمین کو ملحدین ،کفار واسلام دشمن عناصر کے ہتھکنڈوں سے محفوظ رکھا جاسکے اور مسلمان اسلامی تعلیمات سے آگاہ ہو سکے ۔اس غرض سے جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک میں اس شعبہ کا قیام ہوا ہے ،یہ شعبہ وعظ وتبلیغ رسالے ، پمفلٹ ، کتابچے ، اشتہارات اور مفید لٹریچر شائع کرکے مسلمانوں میں تقسیم کرتا ہے۔
شعبہ ماہنامہ الحق:
                دارالعلوم حقانیہ 1965؁ء سے مسلسل مولانا سمیع الحق صاحب مدظلہ کی زیر ادارت ایک علمی ودینی مجلہ ماہنامہ ’’الحق‘‘شائع کررہا ہے جس میں علمی ، تحقیقی ، ادبی ، سائنسی ،اور عصری مضامین شائع ہوتے ہیں ۔ملک وبیرون ملک اسے جو قبولیت اور پذیرائی حاصل ہوئی ہے اس کی مثال نہیں ۔
شعبہ مؤتمر المصنفین :
                اس شعبہ کی بنیاد حضرت مولانا سمیع الحق صاحب مدظلہ نے 1965؁ء میں مولانا عبد الحق صاحبؒ کی زیر سرپرستی میںرکھی ۔اس شعبہ نے قلیل عرصہ میں نمایاں خدمات سرانجام دیں ،اور اب تک سینکڑوں کتابیں شائع ہوچکی ہیں جن میں چند ایک یہ ہیں:
(1)حقائق السنن شرح جامع السنن لترمذی(2)دعوات حق دو جلد (3)قومی اسمبلی میں اسلام کامعرکہ (4)عبادات وعبدیت (5)مسئلہ خلافت وشہادت (6)اسلام اورعصر حاضر(7)شریعت بل کا معرکہ (8)شیخ الحدیث مولانا عبد الحق ؒ نمبر (9)شرح شمائل ترمذی (10)اسلام کا نظام اکل وشرب ۔(۱۱)  انوارِ حق  (دو جلد )۔(مکتوبات مشاہیر،جلد7)
کتب خانہ دارالعلوم حقانیہ :
                دارالعلوم حقانیہ کا عظیم الشان کتب خانہ ایک عالیشان دو منزلہ عمارت میں واقع ہے جس 50,000ہزار درسی ، غیر درسی کتب اور مخطوطات کا عظیم الشان علمی ذخیرہ محفوظ ہے اور یہ عظیم کتب خانہ پہلے احاطۂ قاسمیہ کی فوقانی منزل پر واقع تھا ۔اب اس کو ایوان شریعت ہال کے نیچے جدید کتب خانہ میں منتقل کردیا گیا ہے ۔
شعبہ رسائل وجرائد :
                یہ وہ شعبہ ہے جس میں بر صغیر پاک وہند ، ایران ،افغانستان ، سعودی عرب ،مصر وغیرہ سے شائع ہونے والے رسائل کا مکمل ریکارڈ محفوظ کیا گیا ہے ،یہاں تمام رسائل کی سالانہ جلد بندی کروائی جاتی ہے ،یہ شعبہ ایک عظیم کتب خانے کی حیثیت حاصل کر چکا ہے، ہزاروں ارباب علم وتحقیق اس سے مستفید ہوتے ہیں ۔ اس کی نگرانی مولانا عرفان الحق صاحب کر رہے ہیں ۔
الحق دارالمطالعہ:
                یہ وہ شعبہ ہے جس میں روزمرہ کے اخبارات وجرائد اور ضروری کتب کا اہتمام کیا گیا ہے ،جس سے طلباء کرام مستفید ہوتے ہیں ۔



جامعہ کے انتظامی شعبہ جات
                دارالعلوم حقانیہ پاکستان کی وہ عظیم جامعہ ہے جس کو دیوبند ثانی اور جامعہ ازہر کا خطاب ملا ہے ،اس جامعہ کے تعلیمی شعبوں کے ساتھ ساتھ انتظامی شعبے بھی کئی ہیں:
دفتر اہتمام ومحاسبی:             
                اس شعبہ میں دارالعلوم کے تمام انتظامات ، حساب وکتاب اور مالیات سے متعلق جملہ امور حضرت مہتمم صاحب کی نگرانی میں دارالعلوم کے ناظم اعلیٰ مع چار دیگر ناظمین پر مشتمل عملہ سرانجام دے رہاہے اور ہر سال ان کا حکومتی سطح پر آڈٹ کرایاجاتا ہے ۔
دفتر تعلیمات:
                جامعہ کی تاسیس کے ساتھ ہی جامعہ میں دفتر تعلیمات کا ایک الگ شعبہ قائم ہوا ۔ داخل شدہ طلباء کا جملہ ریکارڈ ، ان کے امتحانی نتائج کا اندراج ، سندات کا اجراء اور امتحانات کے متعلق جملہ امور اسی شعبہ کے ساتھ متعلق ہیں ۔حضرت مولانا انوار الحق صاحب مدظلہ خود اس دفتر کی نگرانی فرماتے ہیں۔
شعبہ مطبخ:
طلباء کی دیگر ضروریات کے علاوہ خوردونوش کا انتظام بلا معاوضہ دارالعلوم ہی کی طرف سے ہوتا ہے ،اس مقصد کے لئے مطبخ کا ایک مستقل شعبہ قائم ہے ،اور اس سے اوسطاً 4000ہزار طلباء بیک وقت کھانا لیتے ہیں جس پر کم ازکم ڈیڑھ کروڑ روپیہ (1,500,000,0)  سالانہ خرچ ہوتا ہے ،یہاں سات باورچی اور ایک نگران بھی کام کرتے ہیں ، نیا مطبخ تیار ہو چکا ہے،جو کہ چار منزلہ عمارت پر مشتمل ہے ۔پہلی منزل پرمطبخ ، دوسری منزل پر مطعم ،یہ چار منزلہ عمارت کروڑوں روپے کی لاگت سے تیار ہو ئی ہے ۔
شعبہ آب رسانی :
                چونکہ دارالعلوم کی تعمیرات بہت وسیع ہیں ، اس وسعت کے باعث طلباء کے ہاسٹلوں، اساتذہ کے رہائشگاہوں ،مسجد کے وضوخانوں ، استنجا خانوں ،دارالعلوم کے غسل خانوں ، بیت الخلاء ، دارالحفظ والتجوید اور جامعہ کے تمام شعبوں تک پانی پہنچانے کے لئے اس شعبہ کی خدمات حاصل ہیں ۔
شعبہ ہاسٹلز :
                جامعہ میں کل دس ہاسٹلز ہیں ۔احاطہ مدنیہ میں ایک سو بیس کمرے ہیں ،احاطہ قاسمیہ ، احاطہ یوسفیہ ،احاطہ احمدیہ ،احاطہ محمودیہ ،احاطہ مدنیہ ،ایوان شریعت ،احاطہ اسماعیلیہ ،احاطہ مولانا عبد الحق ؒ ،احاطہ ماوراء ا لنہر ،ہر کمرے میں آٹھ طلباء کی اقامت کا بندوبست ہے ۔ان سب احاطوں کی تعمیر نو حضرت مولانا سمیع الحق صاحب مدظلہ کی محنت شاقہ کی بدولت ممکن ہوئی جو جامعہ کے حسن میں چار چاند لگا دیتے ہیں ۔
ایوان شریعت
                 یہ عظیم عمارت کروڑوں روپے کی لاگت سے تعمیر کی گئی ہے ۔اس چار منزلہ عمارت میں فی الحال پہلی منزل پر طلباء کی رہائش گاہ ،دوسری منزل پر درسگاہ اور جامعہ کے دفاتر،تیسری اور چوتھی منزل پر ایشیاء کا سب سے بڑا دارالحدیث ہے ۔یہ پُرشکوہ عمارت چار سال کی شب وروز کی محنت شاقہ کے بعد مکمل ہوئی ۔دارالحدیث میں تین ہزار طلباء کی گنجائش ہے ۔اس کے اندر بنائے سٹیج پر دوسو کے قریب افراد آسکتے ہیں ۔ ہال کے درمیانی حصہ میں کوئی ستون نہیں ۔ اطراف میں گیلریاں بنی ہوئی ہیں ، ساتھ ہی شیخ الحدیث چیمبر بنایا گیا ہے۔عمارت میں لکڑی ، شیشہ اور سنگ مرمر کا انتہائی خوبصورت کام کیا گیا ہے ، حسین وجمیل نقوش سے مزین چھت ،اور اس کے اندر سنگ مرمر کے قمقمے حسن ودلکشی کا ایک عجیب سماں پیدا کرتے ہیں ۔جلد ہی تمام عمارت کو سنٹرل ائیر کنڈیشن کرنے کا منصوبہ ہے ۔اس کے ساتھ بنائے جانے والے دو بلند میناروں کا سنگ بنیاد امام حرم جناب الشیخ صالح بن حمید مدظلہ نے رکھا ۔یہ عظیم عمارت حقیقتاً علوم نبویہ کے اہم مراکز ، جیسے حرمین ، کوفہ ،بغداد ، بخارا ، ثمرقند ،بصرہ اور دیوبند کی علمی عظمتوں کی امین ہے ۔اس کی پیشانی پر بنائے جانے والے مصحف مبارک کی روشن کرنیں انشاء اللہ پوری دنیا میں اسلام کی حقانیت اور ابدیت کا پیغام پہنچائیں گی ۔
مہمان خانہ :
                اضیاف کرام کے لئے ایک مناسب مہمان خانہ تعمیر کیا گیا ہے ،جس میں مہمانوں کے شایان شان تمام سہولیات میسر ہیں ۔
جامع مسجد دارالعلوم حقانیہ:
                دارالعلوم کی پُرشکوہ جامع مسجد ہر اعتبار سے خوش نما ، دل آویز ،پُرکشش ،جاذب نظر اور ایمان افروز ہے ۔جس کا بلند وبالا مینار منبع رشد وہدایت ہے ۔کشادہ پُر فضا صحن ، روح پرور اور دل فریب بھی ہے ۔یہ مسجد اکوڑہ خٹک کی سب سے بڑی مسجد ہے ۔ جس کا سنگ بنیاد 22 ؍ شعبان بمطابق 14؍ مارچ 1958؁ء کو مدینہ منورہ کے مشہور عالم ، شیخ طریقت حضرت مولانا عبد الغفور عباسی نور اللہ مرقدہ ٗ کے دست مبارک سے ان کی تشریف آوری کے موقع پر رکھا گیا تھا ۔جب کہ مسجد کا صدر دروازہ کا سنگ بنیاد 23؍ جمادی الاولیٰ 1382؁ھ کو بروز منگل بعد از نماز عصر حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب ؒ نے رکھا ۔جامعہ اب ایک وسیع جامع مسجد کی تعمیر کا ارادہ رکھتی ہے ۔

دارالمدرسین:
                یہاں جامعہ کے اساتذہ کے رہائشی 12مکانات ہیں ، اب اس مقصد کے لئے ایک نیا احاطہ دارالمدرسین جدید بن چکا ہے اور اس میں رہائشی کل آٹھ مکانات ہیں ۔
شعبہ الیکٹرک :
                الحمد للہ جامعہ میں ایک شعبہ بجلی کا بھی ہے جس نے مدرسہ کی بجلی کا انتظام احسن انداز سے سنبھال رکھا ہے ۔
شعبہ باغبانی:
                دارالعلوم کو ظاہری معنوں میں سرسبز وشاداب رکھنے کے لئے یہ شعبہ قائم کیا گیا ہے ، جس میں چار مالی کام کرتے ہیں ۔
عید گاہ دارالعلوم حقانیہ :
                دارالعلوم حقانیہ کے عقب میں اہلیان اکوڑہ خٹک کی واحد وسیع وعریض عید گاہ ہے ، اس کی بنیاد 1923؁ء میں رکھی گئی ۔ اس عید گاہ میں خطابت کا منصب شیخ الحدیث حضرت مولانا عبد الحق صاحب ؒ کو سونپا گیا ۔حضرت شیخ الحدیث ؒ کی وفات کے بعد یہ ذمہ داری حضرت ؒ کے فرزند ارجمند مہتم جامعہ حقانیہ مولانا سمیع الحق صاحب مدظلہ کو سونپی گئی ۔ ان کی عدم موجودگی میں یہ فریضہ مولانا انوارالحق صاحب سرانجام دیتے ہیں۔یادرہے کہ اس عید گاہ میں نمازیوں کی تعداد ایک لاکھ سے زائد ہوتی ہے ۔
شعبہ ڈسپنسری:
                جامعہ ہذا میں اپنی مدد آپ کے تحت ڈسپنسری کی سہولت بھی موجود ہے جس میں فرسٹ ایڈ اور عام بیماریوں کی ادویات بروقت ملتی ہیں ، کسی بھی ایمر جنسی کی صورت میں طلباء اس کی طرف رجوع کرتے ہیں ۔

ناظمین مدرسہ :
                جامعہ کے ناظم اول حضرت مولانا سلطان محمودصاحبؒ تھے ، ناظم دوئم مولانا گل رحمن ؒ ، ناظم سوئم محمد ابراہیم کھاتویؒ اور اب موجودہ ناظم حضرت شیخ الحدیث ؒ کے فرزند الحاج مولانا اظہا رالحق صاحب ہیں ۔
کل تعداد طلباء کرام:
                جامعہ میں روزاول سے طلباء کی تعداد کافی رہی ہے ، امسال جامعہ میں طلباء کی کل تعداد چارہزار کے لگ بھگ ہے ۔
اساتذہ کرام دارالعلوم حقانیہ :
                جامعہ میں ذہین فطین ،قابل ،مقبول عند اللہ تجربہ کار اساتذہ کرام کی کل تعداد 60ساٹھ ہے جو انتہائی محنت ومشقت کے ساتھ جامعہ کی بے لوث خدمت کررہے ہیں ۔

اے خدا ایں جامعہ را قائم بدار
تافیض او جاری بود لیل ونہار
____________



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں